The Enchantment of Voice | آواز کا جادو | A short yet compelling story




"!میں کہ رہی ہوں نا بھیّا ڈھائی سو250 روپے سے ایک روپیہ زائد نہیں دوں

 گی..."
اُس کی نرم اور مترنم ہنسی اُس چھوٹی مگر نفیس دکان میں گونجی تھی۔  


اور دکان دار کی آنکھوں کی چمک میں یک لخت کئی گنا اضافہ ہوا۔

 اُس نے چونک کر اُس دوشیزہ کی سیاہ نقاب کی جھری سے ہلکی سی نظر آنے والی شفاف کانچ آنکھوں میں دیکھا جن میں کسی سمندر کی نیلاہٹ کا عکس جھلک رہا تھا۔ 


"چلیں جی، آپ اتنی محبت سے اصرار کر رہی ہیں تو 250 ہی صحیح۔ آپ بھی کیا یاد رکھیں گی کس رئیس سے پالا پڑا تھا!" 

وہ وارفتگی سے اُس کے نقابی چہرے کو تکتے ہوئے بولا۔ 


"ہممم وہ تو ہے ، بھیّا۔" 

عادلہ کو دکان دار کے لو دیتے لہجے سے  یکایک ہی عجیب سا احساس ہوا۔

اُس نے یوں ہی اپنے نقاب کو شانوں پر مزید پھیلایا، آنکھوں پر چشمہ کا پہرا چڑھایا اور سر کی جنبش سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنا من موہنا سوٹ تھامے کھڑی ہو گئی جو دکان دار 450 سے کم نہ بیچنے پر بہ ضد تھا لیکن اُس کی 20 منٹ کی تکرار اور اصرار بالآخر رنگ لائی۔ 


 "واہ بھئی، 250 روپے میں اتنا نفیس اور دلاویز سوٹ! "

 "پورے 150 روپے کم" 

"تنا نفع کا سودا ہوا۔"

 "حمنہ تو دیکھتے ہی پوری جل بھن جاۓ گی!"


وہ دل ہی دل میں خیالی پلاؤ پکاتی مسکرائی۔ 


~• ~ •


کُرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ارسلان نے پُر شوق نگاہوں سے اُس برقع پوش

 لڑکی کو گھورا جس کی کم عمری کا اندازہ اُس کے سیاہ اور ڈھیلے عبایا میں ہرگز

 نہ ہوتا تھا ۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنی مترنم آواز میں سوٹ کے تئیں بھاؤ تاؤ کرنے

 لگی، ارسلان کو اُس کے کوئی "مہ جبیں"، "نازنیں" اور "چاند کا ٹکڑا" ہونے کا

 شدت سے احساس ہوا۔ 


اُس پر مستزاد، اُس دوشیزہ کی شفاف جھرنے جیسی ہنسی، اُف! ارسلان کو  پاگل ہی

 تو کر گئی۔ 


وہ 20 منٹ سے مسلسل قیمت کم کرانے کو بولتی رہی، اور ارسلان کی نگاہیں اُسکی گداز اور مہندی سے مزین ہتھیلیوں پر پھسلنے لگی۔

 

" کاش ایک بار اِس حسینہ کا چہرہ ہی دیکھ لوں!"
 اُس کے دل نے شدت سے فرمائش کی تھی۔ 


جیسے ہی وہ حجابی لڑکی جانے کو کھڑی ہوئی، مرتا کیا نہ کرتا، دل کے ہاتھوں سے مجبور، وہ جوشیلا نوجوان یک بیک کُرسی سے اٹھا اور ہے ساختہ لڑکی کی گداز کلائی تھام لی۔ 


عادلہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، زبان تالو سے چپک گئی۔ اِس اچانک اور غیر متوقع اُفتاد پر وہ بوکھلاہٹ اور ہے یقینی کا شکار ہو گئی۔


وہ تو ایک با پردہ اور با حیا لڑکی تھی، کسی نا محرم نے کبھی اُس کو چھونا تو کجا ایک نظر دیکھا بھی نہ تھا۔ 


چہ جائیکہ وہ ذلیل دکان دار بائیں ہاتھ سے اُس کی کلائی پکڑے، دایاں ہاتھ اُس کے عزیز از جان نقاب کی طرف بڑھا رہا تھا۔ 


اُس کمینے کی آنکھوں سے نکلنے والی منہ زور جذبات کی تپش پر عادلہ کو کسی پاگل کُتّے کی ٹپکتی ہوئی رال کا گمان ہوا۔ 


خوف و دہشت کے سنپولے اُسے اپنے پورے وجود پر رینگتے محسوس ہوئے ۔ 


بچے کچے حواس کو یکجا کرتے ہوئے، عادلہ نے یکدم اپنی کلائی اُس آہنی گرفت سے آزاد کرائی اور بائیں ہاتھ کا بھرپور طمانچہ اُس خبیث انسان کے گال پر جڑ دیا۔ 


"بد تمیز!"
 وہ آنسو پیتے ہوئے غرائی۔


گھر کی جانب تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اُس کا سینہ دھونکنی کی طرح پھول پچک رہا تھا۔ تنفس بگڑ گیا تھا اور اشکبار آنکھیں ٹوٹے ہوئے کانچ کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ 


من پسندیدہ سوٹ تو شاید بہت پیچھے ہی رہ گیا تھا۔ 


اگلے لمحے وہ حمنہ کے گلے لگ کر کئی لیٹر آنسو بہاتے ہوئے اپنے ساتھ پیش آیا ناگہانی واقعہ سنا چکی تھی۔ 




حمنہ نے اپنی ازلی نرمی سے اُس کی پیٹھ تھپکی اور دوپٹے سے آنسو صاف کرکے پانی پلایا۔ 


"جو تم نے کیا وہ بالکل مناسب تھا، عادی جان۔ اُس کمینے انسان کو ایک نہیں تین طمانچے لگنے تھے."

حمنہ کے لہجے میں ہمدردی ہلکورے لے رہی تھی۔ 


:عادلہ نے گیلی سانس کھینچتے ہوئے پوچھا:


"اِس میں میری بھی کچھ غلطی تھی حمنہ ؟؟" 


عادلہ کا ضمیر اُسے مسلسل کچوکے لگا رہا تھا۔ کچھ تو تھا، جو شاید اس نے بھی غلط کیا تھا۔ 


"تُم بتاؤ؟ تمہارا کیا خیال ہے؟؟"

حمنہ نے اپنی زیرک نگاہیں عادلہ کے روئے چہرے پر ڈالی ۔ 


"پتہ نہیں۔ میں تو برقعے میں تھی نہ، حمنہ۔ میں نے تو اُس جاھل کو کئی بار بھیّا بھی کہا تھا۔ اتنی نرمی سے، اخلاق سے بات کر رہی تھی۔ پھر بھی پتہ نہیں اُس ذہنی مریض کو کیا ہوا؟ شروع میں تو وہ اتنا تمیز دار لگ رہا تھا۔ پھر پہلے تو عجیب ...ایکسرا کرنے والی نظروں سے گھورنے لگا اور پھر"

وہ سدا کی حساس پھر سسکیاں لینے لگی۔ 


حمنہ نے اُس کی سرد ہتھیلی کو اپنی گرم ہاتھوں میں لے کر تھپکا۔ 

"عادلہ، تُم نے کوہِ طور کا واقعہ سنا ہے؟؟"


 عادلہ نے قدرے الجھن اور حیرت کے ساتھ دہرایا۔

کوہِ طور کا واقعہ؟ ہاں، کچھ کچھ سنا ہے۔ لیکن وہ اس بات سے کیا تعلق رکھتا ہے؟. "


حمنہ نے نرمی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا،

 "اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے ہی براہِ راست کلام کیا تھا جس پر اُنہوں نے کلیم اللّٰہ کا لقب پایا۔ اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ہی اللہ تعالیٰ کو براہِ راست دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی تجلی کو نہیں سہہ پائیں گے۔ اور جب اللہ کی ایک جھلک کوہِ طور پر ظاہر ہوئی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔"


عادلہ خاموشی سے سن رہی تھی، لیکن اُس کی آنکھوں میں تشویش کا عکس محسوس کرتے ہوئے حمنہ نے پوچھا:

 "جانتی ہو ایسا کیوں؟"


عادلہ نے نا سمجھی سے سر ہلایا۔ 


"کیوں کہ آواز جادو ہوتی ہے، بہنا! 

پھر ایک خوبصورت آواز تو سننے والوں کو اور بھی اُس شخصیت کے دیدار کے لیے مضطرب کرتی ہے۔ 

 اور پھر ہم عورتوں کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی زینت کے ساتھ کیا ہے۔ ہمارے پورے وجود کو ہی خوبصورتی بخشی، ہماری حرکات و سکنات میں ایک الگ مقناطیست رکھی۔ 

ہمیں پھولوں سے زیادہ خوب صورت اور  ہیروں جواہرات سے کہیں زیادہ قیمتی بنایا۔

پھر مزید احسان کیا کہ پردہ کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ 

کسی شہزادی کی طرح ہمیں پروٹوکول دیا۔ 

کہ ہر ایرا غيرا شخص ہمیں نہیں دیکھا سکتا۔ ہر دوسرا مرد ہم سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ 

بلکہ کچھ چنندہ، معتبر اور خوش قسمت  مردوں کے حصارِ حفاظت سے ہمیں نوازا۔ یعنی ہمارے محارم۔"


خوابیدہ آنکھوں سے خلا میں تکتی ہوئی حمنہ بولتی رہی۔ اُس کے چہرے پر ایک مدھم مسکراہٹ رقصاں تھی۔ 



 لیکن عادلہ جو اُس کے طرزِ تخاطب سے بے چین ہو رہی تھی، پہلو بدلتے ہوئے جلدی سے  بولی: 


"اوہ حمنہ، یہ سب تو مجھے پتہ ہے۔ الحمدللہ میں خود کو بہت خوش قسمت بھی سمجھتی ہوں کہ میں ایک حجابی ہوں۔

 لیکن یہ آواز کا معاملہ کیا ہے؟ کیا اب آواز کا بھی پردہ ہے؟ اب کیا ہم بولیں بھی نہیں؟ "



"دیکھو میری پیاری، عورت کا مطلب ہی ہے "چھپی ہوئی چیز" ، ٹھیک؟ "

رہی بات آواز کے پردے کی تو اِس میں علماء کا کچھ اختلاف ہے کہ یہ مکمل ستر ہے یہ نہیں۔ یعنی کیا عورت مرد کے سامنے بلکل بھی  بات کر سکتی ہے یہ نہیں۔ 

 لیکن اس پر سب متفق ہیں، کہ عورت کی آواز جو فطری طور پر ہی نرم و نازک ہوتی ہے فتنہ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے عورت بلا ضرورت غیر مردوں سے بات نہ کریں۔ "


حمنہ نے دوپٹہ کے ہالے سے نکلتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا اور مزید گویا ہوئی : 


 "اگر  ضرورت کے تحت آپ کو بات بھی کرنی پڑ جائے، مثلاً ڈاکٹر سے، تو آپ نے پردے میں رہ کر سنجیدہ، serious اور استغناء کے ساتھ بات کرنی ہے۔  دو ٹوک انداز میں۔ بقدرِ ضرورت۔ 

یہ نہیں کہ آپ بھاؤ تاؤ کے چکر میں ہنسی مذاق کرنے لگو، اپنی حیا پر لگتے زخموں کا بھی نہ خیال کرو میری پیاری !!"


عادلہ کو یکلخت اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ 


" آپ بھاؤ تاؤ کرکے بھی کتنی قیمت کم کرا سکیں گی؟ حد سے حد 100، 200، 300۔ 

لیکن آپ کی حیا کا کیا؟ اُس میں آنے والے crack کا کیا؟ 

کیا ہماری حیا کی کوئی قیمت نہیں؟" 


عادلہ کا سر شرمندہ خم ہوا۔ 


"دیکھو بہنا! میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں ہے۔ غلطی یقیناً اُس دکان دار کی بھی تھی۔ لیکن ہمیں بھی تو ایسے ذہنی مریضوں کو اپنی طرف سے کوئی موقع نہیں دینا چاہیے نہ؟"



"تو کیا ہم نا محرم سے سختی سے بات کر کے بد اخلاق نہیں کہلائیں گے، حمنہ؟ اخلاق بھی تو اسلام کا حصہ ہے نا ؟"


حمنہ نے نفی میں سر ہلایا۔ 


"بلکل نہیں۔ یہ شیطانی خیال ہے بہن! 

نا محرم کے حق میں آپ کی بد اخلاقی ہی عین اسلامی عمل ہے۔  سمجھیں؟ 

میں یہ نہیں کہ رہی کہ آپ بد اخلاقی میں آ کر اُس کو گالیاں دو، تُو تڑاک سے بولو ۔ لیکن نرمی بھی نا کرو۔ بہت سلیقے اور خوبصورتی سے بھی نہ بولو۔ 

جانتی ہو ہماری امّا عائشہ صدیقہ اور دیگر اُمہات المومنین ضرورت پڑنے پر کیسے غیر محارم سے بات کرتی تھیں؟" 


حمنہ نے عادلہ کے تجسّس کو ہوا دی۔ 


"بتاؤ نا کیسے؟"


"پہلے وعدہ کرو، وہ جو فریج میں تُم نے آئس کریم چھپا رکھی ہے، مجھے بھی  دوگی!" 


حمنہ نے 

شرارت سے مسکراہٹ دبائی تو عادلہ نے منہ بسورا ۔ 


"دے دوں گی نیت خراب! امّی عائشہ پر ایک نہیں سو آئس کریم بھی قربان!" 

عادلہ نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری۔


حمنہ نے ستائشی ابرو اُچکائی ۔




"ہممم گڈ گرل! خیر۔ 

پہلے میں تمہیں سورہ احزاب کی ایک پیاری سی آیت سناتی ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’یٰنِسَاۗءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَیْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا‘‘ (الاحزاب:۳۲)

’’ اے نبی کی بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو، (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً) خیال (فاسد پیدا) ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کہو۔‘‘

                                                         

دیکھ رہی ہو، عادی جان؟ مخاطب کون ہیں؟

اِس دُنیا کی سب سے پاکیزہ ہستیاں! 

پھر میری اور تمہاری کیا حیثیت!


اس کلامِ الٰہی کا اترنا تھا کہ پھر صحابیات نہایت احتیاط سے، دیوار کی اوٹ سے بلکہ بعض تو منہ میں کوئی کپڑا ٹھونس کر بات کرتیں۔ تاکہ آواز باریک نا لگے۔  

یہ تھا صحابیات کا صحابہ سے پردے کا عالم! پھر سوچو ہمیں کس قدر احتیاط برتنی چاہیے؟! 

تو میری بھولی بہنا، آئندہ خیال رکھنا۔ ہمیں نہیں معلوم کس بندے کا دل اندر سے کیسا ہے۔ آواز میں لوچ، نزاکت اور نرمی تو ہرگز نہ پیدا ہونے دینا۔ دو ٹوک میں بقدرِ ضرورت بات۔ بس۔"



"میں تو اب سے ایسے بولوں گی جو سامنے والا  مجھے کوئی ڈاین یا چڑیل ہی سمجھنے لگے۔ "

عادلہ معصومیت سے بولی تو حمنہ کے حلق سے ایک فلک پھاڑ قسم کا قہقہ برآمد ہوا۔ 


  "بہتر ہے کہ محرم کے ساتھ ہی شاپنگ پر جانا۔ 

یہ محارم تو ہم باپردہ لڑکیوں کے اللہ کی طرف سے متعین کردہ 24X7 ملازم ہوتے ہیں، یار!

 پھر پورا فائدہ اٹھاؤ، صحیح؟" 



"تھینک یو سو مچ، حمنہ! تُم کتنی پیاری ہو بہن!"

عادلہ نے حمنہ کے گلے میں بازو حمائل کر دئے۔ 

"آئس کریم لے کر آؤ، محترمہ! باتوں سے مت ٹرخاؤ۔"

حمنہ نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے لڑاکا عورتوں کے انداز میں کہا۔ 



"چڑیل!"

عادلہ نے حمنہ کے زور دار دھپ لگائی تو دونوں ہی کھلکھلا اُٹھیں۔


اور عادلہ کے دل نے آج پھر سرگوشی کی - دیندار ساتھی ہونا بذاتِ خود نعمتِ عظمیٰ ہے!



~ ٭ ~ ٭ ~ ٭


So, how did you like the story?

I wrote it while struggling with writer's block and working on a chapter of my Islamic novel, "Aabgina" —a thriller filled with suspense, mystery, and plot twists.

But ended up creating this straightforward and brief story as a refreshing break 🤭.


Feel free to comment and share 💕

Comments

  1. MashaALLAH MashaALLAH, It is ethereal and Dreamy short story. Starting me Aisa laga tha ke yeh Ghar jaayegi aur..... lekin vahan par pura qissa hi change ho gaya.

    And yes You said correct - There is deep message for women.

    It is Elegant, Enjoyable, fasanating and ethereal.

    I can't sumarise your story and me hi nahi, koi bhi aapke thinking ka andazah nahi laga sakta because you think out of world....

    MashaALLAH 💖💖💖

    I loved Your story ♥️

    ReplyDelete
  2. جزاک اللّہ خیرا @humi

    ReplyDelete
  3. بہت ہی پیارا اور دلکش انداز ہے
    دل کو چھو لینے والی سبق آموز کہانی ہے ما شاء اللہ
    آپ کی English میں فصاحت ہی کی کیا کم تھی سبحان اللہ اردو بھی بڑی اعلیٰ معیاری ہے
    اللہ قبول فرمائے 💖

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی انگلیش میں فصاحت ہی کیا کم تھی ***

      Delete
  4. This touched my heart and left me with a valuable lesson to ponder. It was simply enchanting and truly inspiring.💕

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

"You won Ghaza!" (An imaginative Journey and Letter 💌)

Finally, I found LOVE! 💕 (A heartwarming poem)

You are Loved by someone incredibly | Do you realize?